گُلِ داؤدی کی کاشت
نام کا مآخذ : Chrysanthemon یونانی لفظ Chrysanthemum سے ماخوذ ہےجودو
الفاظ Chrys کا مرکب ہے۔ anthemon اورChrys کا مطلب ہے سنہری ( کیوں کہ اس کےاصل
پھولوں کا رنگ سنہری ہوتا ہے ) اور anthemon کا مطلب ہے پھول۔
اُردو زبان میں نام: اُردو زبان میں اسے گُلِ داؤدی، سدابہار یا ستارہ نما پھُول کہا جاتا ہے۔
مقبولیت : گلاب کے بعد یہ پھُول دنیا کے مقبول ترین پھُولوں میں سے ایک ہے۔
گُل، داؤدی کی دریافت: گُلِ داؤدی کو مشہور چینی
سائنسدان ٹاؤ منگ یانگ نے 500 قبل عیسوی میں دریافت کیا تھا۔ یہ پھُول اس وقت سے اب
تک چین
میں کاشت ہو رہا ہے۔
گُلِ داؤدی
جاپان میں: تقریباً 900 عیسوی میں یہ پھُول جاپان پہنچا۔ اس کا پہلا شو 926 عیسوی میں
ٹوکیو میں ہوا جس کا افتتاح جاپان
کےشہنشاہ نے کیا۔ اب یہ جاپان کا قومی پھُول ہے۔
گُلِ داؤدی یورپ ، امریکہ، برطانیہ اور برِصغیر میں: سترہویں صدی عیسوی میں یہ پھُول یورپ پہنچا اور پھر وہا ں سے
امریکہ میں متعارف ہوا۔ برطانیہ
میں یہ پھُول 1764 عیسوی میں متعارف ہوا اور
پھر وہاں سے بر ِصغیر آیا۔ مغلوں کے
آخری دور میں اسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔
گُلِ داؤدی کی اقسام : گُلِ داؤدی کی تقریباً 150 اقسام ہیں۔
Chrysanthemum کے پھُول کی ساخت:اس کا ہر پھول دراصل بہت سے پھولوں کا ایک جھرمٹ ہوتا ہے ۔ اس کے پھول مختلف شکلوں میں کھلتے ہیں۔ یہ پھُول ڈیزی کے پھُول کی طرح آرائشی، گیندنمایا بٹن نما ہو سکتے ہیں۔
Chrysanthemum کا
خاندان :
گُلِ داؤدی کی خصوصیات :
v اس کے پھُول تمام رنگوں کے
مختلف شیڈز میں ہوتے ہیں ماسوائے نیلے رنگ
کے۔
v یہ ایک جھاڑی نما سدا بہارپودا ہے۔
v اس پر موسمِ سرما کے آغاز
یں پھُول آتے ہیں۔
v یہ گرم مرطوب آب و ہوا میں خوب پھلتا پھُلتا ہے۔
v یہ بہ طور کٹ فلاور بھی استعمال ہوتا ہےاور اس کی گُلدان میں عمر تقریباً 15 دن تک ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا پانی ہر روز تبدیل کیا جائے۔
کاشت کے لیے موزوں موسم : : Chrysanthemum منطقہ حارا یعنی گرم ملکوں کا پھول ہے۔ اسےکسی بھی موسم میں اُگایا جا سکتاہے لیکن بہترین کارکردگی اور پیداوارکے لیے اسےدھوپ والے موسم کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے بیج ان علاقوں میں بوئے جاتے ہیں جہاں برسات کے موسم میں بارش کم ہوتی ہو۔
کاشت کا طریقہ : گُلِ داؤدی کی کاشت کرنا آسان ہے ۔ اسےجڑوں ، سکرز،قلموں اور بیجوں کے ذریعہ کاشت کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر اس کے بیج بونے کے بعد پنیری تقریباً ایک مہینے میں تیار ہو جاتی ہے۔لیکن بعض اوقات بیجوں سے براہ راست بوائی بھی کی جاسکتی ہے اور جب پودے کچھ بڑے ہو جائیں تو ان میں سے فالتو یا اضافی پودے نکال دیے جاتے ہیں ۔ پنیری لگانے کے تقریباً تین ماہ کے بعد پودوں پر پھُول آنا شروع ہو جاتے ہیں اور کافی عرصہ تک پھُول آتےرہتے ہیں۔
سکرز سے افزائش کا طریقہ : دسمبر کے آخر میں جب اس
کے پھُول سوکھناا ور بدنما ہنا شروع ہو
جائیں تو پودوں کو نیچےسے 6 انچ کا فاصلہ
چھوڑ کر کاٹ لیں اور سایہ دار جگہ میں بھل یعنی نہری مٹی پر
ڈھیر لگا دیں۔ فروری کے مہینے میں ان پر بے شمار سکرز نکل آئیں گے۔ جب یہ سکرز
3 تا
4 انچ کے ہو جائیں تو ان کو علاحدہ
علاحدہ کر کے 10 تا 12 انچ کے گملوں میں
منتقل کر دیں۔ ہر گملے میں 8 تا 12 سکرز لگائیں۔ ایک ماہ کے بعد ان سکرس کو کیاریوں میں لگا دیں۔ اس مقصد کے لیے
کیاریاں 45 دن پہلے ہی تیار کر لیں۔
کیاریوں کی تیاری کے لیے درکاراجزا :
v نہری مٹی یعنی بھل 1
حصہ
v گارڈن سوئیل 12
حصے
v گوبر کی کھاد 1حصہ
v پتوں کی کھاد 1 حصہ
v نائٹرو فاس1 مربع فٹ میں 1کلو گرام
v گندے نالے یعنی سیوریج ڈرین
کی مٹی 1 حصہ
ان تما م اجزا اچھی طرح ملا کر گوڈی کر لیں۔اس کے بعد اس پر Timicیا کسی اورفنجی سائڈ دوا کا اسپرے کر لیں ۔ پھر ہر ہفتے اس کی گوڈی کرتے رہیں۔ اس دوران میں اُگنے والی جڑی بوٹیاں تلف کرتے رہیں۔ تین یا ساڑھے تین فٹ کی کیاریاں بنا لیں۔ جب پودے لگائیں تو ہر پودے کا درمیانی فاصلہ 18 انچ یعنی ڈیڑھ فٹ رکھیں۔
کاشت کے لیےموزوں مٹی:
اقسام
( Varieties ) :
پھُولوں
کا رنگ:
پھُولوں کا استعمال: یہ پھولوں کے گلدستے بنانے اور دیگر سجاوٹی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
پودوں کی دیکھ بھال :: پنیری کی منتقلی کے بعد کو باقاعدگی اور مناسب وقفے سے پانی دینا ، گوڈی کرنا اور جڑی بوٹیاں تلف کرنا ضروری ہے۔اسی طرح کم زور اور مرجھائے مرجھائے پودے بھی نکال دینے چاہئیں کیوں کہ ان پودوں پر پھُول دیر سے آتے ہیں۔
زیادہ پھُولوں کا حصول: Chrysanthemum کے پودوں سےزیادہ پھُولوں کے حصول کے لیے کچھ ہفتوں کے وقفے سے ان کی کونپلیں توڑ دینا چاہیے۔اس طرح پودے پر شاخیں زیادہ ہونے سے پھُول بھی زیادہ آئیں گے۔ کونپلیں توڑنے کا یہ عمل ٹوک کہلاتا ہے۔ پودوں کی پہلی ٹوک اس وقت کریں جب پودے 4 تا 6 انچ کے ہو جائیں۔ عموماً پہلی ٹوک مارچ کے مہینے میں کی جاتی ہے۔دوسری ٹوک اس وقت کریں جب پہلی ٹوک سے نکلنے والی شاخیں 4 تا 6 انچ کی ہو جائیں۔ دوسری ٹوک اپریل کے مہینے میں ہوتی ہے۔ اسی طرح مئی کے مہینے میں تیسری اور پھر جولائی کے مہینے میں چوتھی ٹوک کی جاتی ہے۔ اکہری یعنی سنگل پھُولوں والی گُلِ داؤدی کی پانچویں ٹوک بھی کی جاتی ہے جو اگست کے مہینے میں کی جاتی ہے۔ اگر پودوں کو گملوں میں منتقل کرنا ہو تو جولائی کے مہینے میں کریں۔ یاد رہے کہ ہر ٹوک کے بعد کسی فنجی سائڈ دوا مثلاً انٹرا کال یا ڈائی تھین 45 ایم کا اسپرے ضرور کریں۔
پودے کے لیےکھاد کی ضرورت: پودوں کو کھاد دینا بہت ضروری ہے لیکن جب پودوں پر کلیاں نکلنی شروع ہو جائیں توکھاد ڈالنا بند کردیں۔
اگر
گوبر کی کھاد دستیاب نہ ہو تو سنگل
سپر فاسفیٹ بحساب 14 گرام فی گیلن
یعنی 4.5 لٹر پانی میں حل کرکے پودوں میں ڈالیں۔
اکتوبر کے شروع میں پوٹاشیم سلفیٹ کھاد بحساب
14 گرام فی گیلن یعنی 4.5 لٹر پانی میں حل کرکے پودوں میں
ڈالیں۔
بیماریوں اورکیڑے مکوڑوں کا حملہ : Chrysanthemum کے پودوں کو افیڈس (Aphids) اور پلانٹ بگز (Plant Bugs) زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان پر نوگاس یاروگرو سٹیٹ کسل کا سپرے کریں۔ پتے کھانے والی سنڈیوں کو بھی انھی ادویات سے کنٹرول کریں۔
اگر دیمک کا حملہ ہو یعنی پتے زرد ہو کر گرنا شروع ہو جائیں تو ہیپٹا کلور
یا ڈائی ایلڈرن یا ٹیناکل
میں سے کسی ایک دوا کے 2 یا 3 قطرے
ہر گملے میں پانی لگاتے وقت دیں۔
اسی طرح رسٹ
یا مل ڈیو پھپھوندی یا پتوں پر سیاہ داغ پڑنے کی صورت میں کسی بھی
فنجی سائڈ دوا بحساب 2 گرام فی لٹر پانی میں ملا کر اسپرے کریں۔
فولیئر نیماٹوڈز Foliar Nematodes نیما ٹوڈز باریک گول کیڑے ہوتے ہیں جو محدّب عدسے کے بغیر مشکل ہی سے دکھائی دیتے ہیں۔
فولیئر نیماٹوڈز سے متاثرہ پودوں کی علامت : : پودوں کےتنے پر نیچے والے پتوں سے شروع ہونے والے اور آہستہ آہستہ اُوپر کے پتوں کی طرف بڑھتے ہوئے زردی مائل بھورے رنگ کے دھبے فولیئر نیماٹوڈس سے متاثر ہونے کی علامت ہیں ۔ متاثرہ پودوں کے گلے سڑے مادے اورمٹی میں نیما ٹوڈزد زیادہ ہوتے ہیں۔ گرے ہوئے پتوں میں نیما ٹوڈز غیر فعال حالت میں ایک سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ وہ پودوں پر موسم بہار کی بارشوں سے پیدا ہونے والی پانی کی فلم(پانی کی پتلی سی تہ) میں تیرتے رہتےہیں اور پھر اسٹومیٹا کے ذریعے پتوں میں داخل ہوجاتے ہیں ۔پودے کی پتیوں پر یہ زردی مائل بھورے رنگ کے دھبے اُوپر کی جانب بڑھتے بڑھتے آخر کار پورے پودے کو متاثر ک دیتے ہیں۔نتیجتاً پودا کمزور ہو کر گر جاتا اورمرجاتا ہے۔ شدید حملے کی صورت میں کیاری یا باغیچے کےتمام پودے مر سکتے ہیں۔
روک تھام اور علاج:پودوں کی آس پاس کی مٹی کے ساتھ ساتھ پودوں کا متاثرہ مواد بھی ہٹا دیں۔
جب پودوں کو پانی دیں تو پتیوں پر پانی
مت چھڑکیں۔
کیڑے مارصابن کا سپرے کرنے
سے نیما ٹوڈز کی آبادی کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
یا نیم آئل Neem
Oil کا سپرے کریں۔
اگر پودے کا رنگ ہلکا پیلاہو جائے اور پودا کمزور نظر آئے تو فیرس سلفیٹ 5 گرام فی پودا ڈالیں۔
ترتیب وتدوین : اکرام سعید
وٹس ایپ : 923481633298+
0 Comments