پاکستان میں امرُود کی کاشت (فارمنگ)،دیکھ بھال، کیڑے، بیماریاں اورعلاج

پاکستان میں امرُود کی  کاشت (فارمنگ)،دیکھ بھال، کیڑے، بیماریاں اورعلاج

امرُود کا تعارف: امرُود کا سائنسی نام Psidium guajava L. ہے۔اس کا تعلق فیملی  Myrtaceae سے ہے۔یہ گرم علاقوں کا پھل ہے۔ دنیا بھر میں پھلوں کی پیداوار کے لحاظ سے  امرُود تیسرےنمبر  پر ہےیعنی دنیا بھر میں جتنے رقبے پر پھل کاشت کیے جاتے ہیں  اس کے ایک تہائی  رقبےپر امرُود کاشت کیا جاتا ہے۔ پودے  پرپکا ہوا اور تازہ تازہ توڑا ہوا   امرُود کاپھل میٹھا اور خُوش بُو دار  ہوتاہے۔

امرُود کی غذائی افادیت: امرُود زیادہ تر یہ تازہ ہی کھایا جاتا ہے لیکن اس سے جیم اور جیلی بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ اس میں  82 فی صد پانی، 7 فی صد پروٹین   یعنی لحمیات  ،11 فی صد کاربوہائڈریٹ یعنی نشاستہ ،وٹامن اے،وٹامن بی ،وٹامن سی،حل پذیر فائبر یعنی  ریشہ، فاسفورس، نکوٹینک ایسڈ nicotinic acid اور کیلشیم   ہوتا ہے۔ اس میں  مالٹے کی نسبت 3 تا 6 گنا  زیادہ،  کیلے کی نسبت 10 تا 30 گنا زیادہ اور  پپیتا کی نسبت 10 گنا زیادہ وٹامن سی ہوتا ہے۔ ایک اوسط سائز کے امرُود میں  25 کیلوریز ہوتی ہیں۔ امرُود  جسم کے مدافعتی نظام کے لیے بہت فائدہ مندہے اور کولیسٹرول کم کرکے دل کی بیماری سے بچاتاہے۔

پاکستان میں امرُود کی کاشت  کے علاقے:  دُنیا  بھر میں سب سے زیادہ امرُود پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔امرُود پاکستان کا ایک اہم  اور مشہور پھل ہے۔یہ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں اُگایا جاتا ہے۔ صُوبہ سندھ میں  اس کی کاشت لاڑکانہ اور حیدر آباد میں ہوتی ہے۔ صُوبہ پنجاب میں اس کی کاشت سب سے زیادہ لاہور، شرقپور شریف، قصور، شیخوپورہ ،   گوجرانوالا اور  سانگلہ ہل میں ہوتی ہے۔ صُوبہ خیبر پختونخوا کےضلع کوہاٹ   میں اعلیٰ معیار کا امرُود بہ کثرت پیدا ہوتاہے۔ ہری پور اور بنوں  میں بھی امرُود کی کاشت ہوتی ہے۔

پاکستان میں امرُود کے پھل کا موسم :  پاکستان میں امرُود کے پودوں پر ایک  سال بھر میں 2 بار پھل آتا ہے یعنی ایک بار موسم سرما میں اور دوسری بار موسم گرما میں۔

امرُود کی کاشت کے لیے موزوں آب و ہوا : امرُود گرم ، نیم گرم   اور سرد آب وہوا والے علاقوں میں  کاشت کیا جا سکتا ہے۔ جن علاقوں میں موسم  سرد ہوتا ہے وہاں امرُود کی پیداوار زیادہ اور معیار بہتر ہو تا ہے۔  امرُود کے چھوٹے پودے  پانی کی کمی اورسردی برداشت نہیں کر سکتے۔  پھُول آنے اور پھل بننے کے وقت  خشک فضا  بہتر ہے۔ جب کہ پھل بننے کے وقت زیادہ درجہ حرارت سے  پھل گر جاتا ہے۔

امرُود کی کاشت کے لیے موزوں مٹی : امرُود بھاری چکنی مٹی سے ہلکی ریتلی مٹی یا  چُونے والی مٹی  میں یکساں بہتر طور پر اُگتا ہے۔ اس کی کاشت کے لیے  مٹی کی پی۔ایچ 4.5  تا  9.4 تک ہو سکتی ہے۔  یہ کسی حد تک نمک  کے خلاف مزاحمت رکھتاہے۔ اگرچہ امرُود کی کاشت کے لیے  پانی کے اچھے نکاس والی زمیں کی سفارش کی جاتی ہے تاہم  یہ  بہت زیادہ نم زمین میں بھی اُگ سکتا ہے۔

امرُود کی افزائش نسل:   امرُود کی افزائش نسل عام طور پر بیج  ہی سے کی جاتی ہے لیکن اس کی افزائش قلمیں ، ائر لیئرنگ، پیوند اور چشمہ لگا کر بھی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ امرُود کی جڑیں مشکل سے نکلتی ہیں  تاہم  نمدار فضا میں اس کی افزائش قلموں سے  کامیابی سے کی جا سکتی ہے۔ موجودہ موسم  میں نکلی ہوئی پتوں والی  10  تا   12 سینٹی میٹر لمبی شاخیں  جنھیں اِن ڈول بیوٹائرک ایسڈ Indole Butyric Acid    لگا کر    جولائی اگست کے مہینوں  میں  گرین ہاؤس میں نمدار فضا میں  ریت میں لگایا گیا ہو  6  ہفتوں کے بعد ان پر عام قلموں   کی نسبت 80 فی صد زیادہ جڑیں نکل آتی ہیں۔ امرُود کے بیج بونے کے بعد 2  تا 3 ہفتوں میں اُگنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن  اس عمل میں 8 ہفتے بھی لگ سکتے ہیں۔  اگر  بونے  سے پہلے بیج  2 ہفتے تک پانی میں بگھو دیا جائے تو اس سے بیج کے اُگنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ بیج اُگنے کے بعد جب پنیری کے پودوں کی اُونچائی 2 تا 30 انچ ( 5 تا 75 سینٹی میٹر)  ہو جائے تو  انھیں گملوں  یا کیاریوں  میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور جب یہ پودے 1 یا 2 سال کے ہو جائیں تو  انھیں باغ  میں  لگا دیا جاتا ہے۔ چوں کہ بیج سے پیدا شدہ پودے اعلیٰ نسل کے نہیں ہوتے لہٰذا  باغ میں لگانے سے پہلے پودوں کو اعلیٰ نسل کی ورائٹی سے پیوندکر دیا جاتا ہے یا پھر  اعلیٰ نسل کی ورائٹی  کے پودوں کی جڑوں سے پودے تیار کیے  جاتے ہیں ۔ یہ عمل بالکل قلمیں لگانے جیسا ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ    دیگر پودوں مثلاً گلاب وغیرہ کی قلمیں  پودے کی شاخوں سے کاٹی جاتی  ہیں جب کہ امرُود کی قلمیں   پودے کی جڑوں سے کاٹی جاتی ہیں۔  جڑوں سے قلمیں حاصل کرنے کے لیے  ان جڑوں کا انتخاب کیا جاتا ہے  جو نہ تو بہت ہی چھوٹی یعنی باریک اور نہ بہت موٹی ہوں۔ ان قلموں  کی لمبائی  5 تا 10 انچ (12.5 تا 20 سینٹی میٹر) اور موٹائی  نصف انچ (12.5 ملی میٹر )  ہونی چاہیے۔ ان قلموں کو  پہلے سے تیار شدہ کیاریوں میں  زمین کی سطح کے متوازی 2 تا 4 انچ (5 تا 10 سینٹی میٹر ) گہرا دبا دیا جاتاہے اور مٹی کو گیلا  یعنی نمدار رکھنے کے لیے دن میں  2 سے 3 بار  اس پر پانی  چھڑکا جاتا ہے۔جاتا ہے۔ زمین میں دبانے سے پہلے ان  قلموں کو  روٹنگ ہارمون لگا لیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا طریقہ ہی ہے کہ  اعلیٰ نسل کی ورائٹی کے پودے کے تنے سے  2 تا 3 فٹ (0.6 تا 0.9 میٹر )  کے فاصلے پر  مطلوبہ جڑ   کاٹ دی جاتی ہے ۔ اس   کٹی ہوئی جڑ سے  نیا پودا   اُ گ آتا ہے جسے  گملے یا کیاری میں  منتقل کر دیا جاتا ہے۔

 امرُود کی تجارتی اقسام : امرُود کی مندرجہ ذیل تجارتی یعنی کمرشل  ورائٹیز ہیں۔

1۔ سفیدہ : اس  ورائٹی کا پھل درمیانے سائز کا سفیدگودے والا ہوتا ہےجس میں تھوڑے سے بیج ہوتے ہیں۔

2۔  سیڈ لیس   (بے بیج) :اس  ورائٹی کا پھل درمیانے سے بڑے سائز کا سفیدگودے والا ہوتا اور شکل ناشپاتی جیسی ہوتی ہے۔

3۔ ریڈ فلیشڈ  ( سُرخ گودے والا ) : اس ورائٹی کا پھل  درمیانے سائز کا، سُرخ گودے اور   بہت سے نرم بیجوں والا ہوتا  ہے۔چوں کہ اس میں پیکٹن                      pectin کی مقدار زیادہ ہوتی ہے  اس لیے یہ جیلی بنانے کے لیے اچھا ہوتاہے۔

باغ میں پودوں کا درمیانی فاصلہ : باغ میں امرُود کے پودوں کے درمیان  5  تا  6 میٹر کا فاصلہ رکھا جاتاہے۔

امرُود کے پودے کی اُونچائی :  امرُود کے پودے کی اُونچائی 33 فٹ تک ہوتی ہے۔

امرُود کے پودوں کی عمر اور پیداواری صلاحیت :  امرُود کے پودے تیزی سے نشو ونما پاتے ہیں اور   بیج سے  اُگے ہوئے پودے 2 سے 4 سال میں پھل دینا شروع کر دیتے ہیں۔  ۔  اگرچہ امرُود کے پودے کی طبعی عمر 30 تا  40 سال تک ہوتی ہے تاہم  ان کی پیداواری صلاحیت 15 سال کی عمر کے بعد کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

امرُود کے پودوں کے لیے درکار   غذائی اجزا  : کھاد اور غذائی اجزا سے  پودوں کی نشو ونما بہتر ہوتی ہے اور پھل کی پیداوار  میں اضافہ ہوجاتا ہے۔  این پی کے NPK  کی متوازن فراہمی  پھل کی پیداوار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ پھل کا معیار بھی بہتربنا دیتی ہے۔ امرُود کے پودوں کو این پی کے NPK کی پہلے خوراک  جنوری کے مہینے میں اور دوسری خوراک  اگست کے مہینے میں ڈالیں۔  ہر خوراک میں اس کی مقدار   2:1:1  ہو یعنی  نائٹروجن والی کھاد( یوریا 2) حصے، فاسفیٹ  1 حصہ اور پوٹاش 1 حصہ  استعمال کریں۔ ان غذائی اجزا کی مقدار کا انحصار پودوں کی عمر اور مٹی کی حالت پر ہے۔  بعض اوقات امرُود کے پودوں میں  زنک اور آئرن کی کمی ہو جاتی ہے۔  اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 7 گرام  زنک سلفیٹ ZnSo4  اور  46.5 گرام  فیرس سلفیٹ   FeSo4 فی  لٹر پانی میں ملا کر  پودوں پر سپرے کریں۔ اس سے پیداوار ا میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ  پھل کا معیار بھی بہتر ہو جاتا ہے۔

امرُود کے پودو ں کی شاخ تراشی :  امرُود کے پودوں کی شاخ تراشی سے پیداوار پر اچھا اثر پڑتا ہے کیوں کہ  امرُود کا پھل ہر سال نئی شاخوں پر ہی لگتا ہے۔  اسی لیے ہر بار  پودوں سے پھل اُتار لینے کے بعد نئی شاخیں نکلنے کے لیے پودوں کی شاخ تراشی ضروری ہے۔

امرُود کے پودوں پر پھُول آنے  اور پھل کی تیاری کا موسم :  امرُود کے پودوں پرہر  سال  دو بار پھُول آتے ہیں۔ پہلی بار مارچ سے اپریل تک موسم گرما  کے پھل   کے لیے  اور دوسری بار  اگست سے ستمبر تک موسم سرما کے پھل کے لیے۔مختلف علاقوں میں  پھُول کھلنے کے دورانیہ میں  25 سے 45 دن تک کا فرق ہو سکتاہے۔ امرُود کے پودوں پر پھُول آنے کے  بعد 90 سے  150 دنوں میں پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ موسم سرما کی فصل کو ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ  اس کی پیداوار زیادہ اور پھل کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے۔ موسم گرما کے آخر میں پکنے والا پھل چھوٹے سائز کا ہوتا ہے جبکہ موسم سرما  کے آخراور بہار کے شروع میں پکنے والا پھل  بڑے سائز کا ہوتا ہے۔پھُول سے پھل بننے کے بعد اسے تیار ہونے یعنی پکنے  میں  تقریباً 4 ماہ لگتے ہیں۔ اس لحاظ سے موسم گرما کا پھل جولائی ، اگست میں اور موسم سرما کا پھل  دسمبر، جنوری میں تیار ہوتا ہے۔  

موسم سرما  میں   امرُود کی اچھی فصل حاصل کرنے  کا طریقہ : موسم سرما  میں   امرُود کی اچھی فصل حاصل کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ  مارچ ،اپریل میں  آنے والے پھُول  پھل بننے سے پہلے پہلے ضائع کر دیے جائیں۔ اس  مقصدکے لیے  30 گرام   2,4-D فی لٹر پانی میں ملا کر پھُولوں پر سپرے کریں۔ امرُود کے باغبان موسم گرما کے آخر میں حاصل  ہونے والی فصل  ختم کرنے کے لیے دسمبر  یاجنوری کے بعد پودوں کو پانی دینا بند کر دیتے ہیں  جس کے نتیجے میں پودےزیادہ پتے  اور پھُول گراتے ہیں  اس طرح   اس موسم کی فصل  کے لیے پھل بنتا ہی نہیں ۔

امرُود کا پھل توڑنا اور پیک کرنا: امرُود کا پھل جب تیار جاتا ہے تو ہفتے میں  2 سے 3 بار  اس کی چُنائی کی جاتی ہے۔ یہ چُنائی 8 سے 10 ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے۔  چوں کہ امرُود کا پھل  بہت جلدی خراب ہو جاتا ہے اس لیے  اسے پودے سے اُتار کر فوراً پیک کرکے  منڈی میں بھیج دینا چاہیے۔

پھل کی تازگی کا دورانیہ : پودوں سے پھل اُتار لینے کے بعد اسے کمرے کے درجہ حرارت (24 تا 44 ڈگری سینٹی گریڈ یا 76 تا 87 ڈگری فارن ہائیٹ) پر 6 دن تک رکھا جا سکتا ہے اور کولڈ سٹوریج میں  12 دن تک رکھ جا سکتا ہے۔ کولڈ سٹوریج  کا  درجہ حرارت 8.33  تا 10 ڈگری سینٹی گریڈ (47 تا 50 ڈگری فارن ہائیٹ ) اور نمی 85 سے 95 فی صدہونی   چاہیے۔

امرُود  ڈبوں میں محفوظ کرنا : امرُود کو ڈبوں میں محفوظ  کرتے وقت اگراس کی چاشنی میں 0.06 فی صد سٹرک ایسڈ اور 0.125 فی صد ایسکاربک ایسڈ ملا دیا جائے تو اس سے پھل کی رنگت تبدیل نہیں ہوتی۔

امرُود کی بیماریاں : موسم برسات میں دیگر کیڑے مکوڑوں کے  حملے کے علاوہ  فنگس   Phytophthora Parasitica پھل کے گلنے سڑنے کا باعث بنتا ہے۔ وِلٹ یعنی پودوں کے مُرجھا جانے کی بیماری  جس کا سبب فنجائی   Fusarium Solani  اور   Macrophomina Phaseoli ہے امرُود کے  1 تا 5 سالہ پودوں  کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کی وجہ سے پودے  مُرجھا کر مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ وِلٹ جو  فنجائی    Fusarium Oxysporum  اور Fusarium Psidii   سے پیدا ہوتی ہے تنوں اور جڑوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔

پاکستان  میں امرُود کی ہائی ڈینسٹی فارمنگ

تعارف :  امرُود کے روایتی طریقے سے لگائے گئے باغ میں پودوں کا درمیانی فاصلہ 18 سے 22 فٹ  اور فی ایکڑ تقریباً  108  سے 135 پودے  لگائے جاتے ہیں ۔ روایتی طریقے سے لگائے گئے باغ  سے سالانہ فی ایکڑ آمدن تقریباً 80 ہزار سے1  لاکھ  20 ہزار تک  ہوتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس  امرُود کی ہائی ڈینسٹی  فارمنگ میں  پودوں کا درمیانی فاصلہ  5 سے 7 فٹ  اور فی ایکڑ 1 ہزار سے 15 سو پودے  لگائے جاتے ہیں۔ اس   طریقے سے لگائے گئے باغ سے  سالانہ فی ایکڑ آمدن 3 لاکھ سے 5 لاکھ تک ہوتی ہے۔

ہائی ڈینسٹی باغ کی دیکھ بھال : اس طریقے سے لگائے گئے باغ میں پودوں کی شاخ تراشی، بروقت اور مناسب کھاد کا استعمال  اور کیڑے مکوڑوں سے بچاؤ ضروری ہے۔

امرُود کاہائی ڈینسٹی  باغ لگانے کا   فی ایکڑ خرچ اور منافع : امرُود کاہائی ڈینسٹی  باغ لگانے کا فی ایکڑخرچ 50 ہزار روپے اور منافع  4 لاکھ روپے ہے۔

ترتیب و تدوین :  اکرام سعید


وٹس ایپ :          +923024226053

Post a Comment

0 Comments